THERE'S ALWAYS PRICE TAG BY JAMES
HADLEY CHASE | M.A RAHAT
ناول:کالی دنیا، کہانی بساط
مصنف: ایم اے راحت
تعارف:میاں محمد عاصم
کچھ ناول ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی نشست میں پڑھے جاتے ہیں اج کل کے مصروف ترین دور میں اگر ایسی کہانی پڑھنے کو مل جائے جو قاری کو مجبور کر دے مکمل پڑھنے پر تو اس کا کریڈٹ صرف مصنف کو جاتا
ہے..کتاب تین کہانیوں پر مشتمل ہے. اس کی پہلی کہانی جس کی بیسک تھیم مشہور زمانہ تھریلر اور سسپنس کے بادشاہ مصنف جیمس ہیڈلے چیز کے ناول There's Always a Price Tag سے ماخوذ ہے.اس پر 1957
میں ایک انگلش فلم بن چکی ہے جس کا نام Retour de manivelle ہے.یہ کہانی میں نے تین مختلف صورتوں میں پڑھی اور دیکھی ہے جس کا احوال آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.میں آپکو ایک ہندی فلم کی کہانی
بتانے لگا ہوں. جو 100 نہیں تو 90 فیصد ایم اے راحت صاحب کی اس کہانی سے ملتی ہے.ہیڈلے چیز نے یہ ناول 1956 میں لکھا اور راحت صاحب کی کہانی سن 2000 یا 2001 میں شائع ہوئی اور فلم 2008 میں بنی
تھی.. ان تینوں کا بیسک
تھیم ایک ہی ہے.
Film: مہاراٹھی فلم کا ایک کردار جے سنگ ہے جو ایک امیر آدمی ہے.. وہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکا ہے جو کسی دور میں فلم انڈسٹری سے وابستہ تھا مگر اب اس کا دور نہیں رہا اور دیوالیہ ہونے کو ہے.. جے سنگ نے
ایک فلم انڈسٹری سے وابستہ جوان عورت سے شادی کر رکھی ہے.. اس عورت کا نام ملکہ ہے. جے سنگ
نے ایک بہت بڑی مالیت کا بیمہ کروا رکھا ہے. جو اس کے مرنے پر اسکی بیوی ملکہ کو ملے گا... ملکہ کی خواہش ہے کہ کسی طرح جے سنگ کو راستے سے ہٹا کر دولت حاصل کی جائے اس کا کیلئے اس کا ساتھ اے
ڈی مرچنٹ نام کا بندہ دے رہا ہے جو کہ ایک قانون دان ہے.. خیر اس موقعے پر فلم میں ایک اور کردار کی انٹری ہوتی ہے جسکا نام سبھاش شرما ہے۔جوکہ ایک جرائم پیشہ انسان ہے. جے سنگ اس کو اپنا ڈرائیور رکھ
لیتا ہے۔اور گھر کے ساتھ کوارٹر میں رہائش بھی دے دیتا ہے اب یہ بات جو کہ
ملکہ کو ہضم نہیں ہو رہی کہ اس کا منصوبہ فلاپ ہو رہا ہے. سبھاش کے آنے سے
سواتی جو کہ گھر میں صاف ستھرائی کرتی ہےجسکا کردار بے حد مثبت ہے مگر وہ بہت کچھ جان کر بھی چپ ہے اےسی پی گوکھلے جو اس ساری واردات کا تفتیشی افسر ہےاب اس کہانی کا اختتام کیسے ہوتا ہے کون کس
کو مارتا ہے یہاں سسپنس توڑنا مناسب نہیں تو اب آتے ہیں راحت صاحب کی کہانی کی طرف کہانی میں ایک کردار فلم انڈسٹری سے وابستہ اوور ایج چوہدری ریاض ہے جو اب اپنا وقت گزار چکا فلم انڈسٹری میں اب اس
کی کوئی جگہ نہیں رہی.. چوہدری ریاض نے ایک خوبصورت عورت سے شادی کر رکھی جو کہ بذات خود بھی فلم انڈسٹری سے منسلک تھی اور چوھدری ریاض کو دل دے بیٹھی اور شادی کرلی بیگم چوہدری کے بھی
کچھ اسی طرح کے وچار ہیں. (جو فلم والی ملکہ کے تھے) .. پھر اس کہانی میں انٹری ہوتی ہے جلال الدین نام کے کردار کی. جو کہ جیل سے سزا مکمل کر کے آیا ہے. جسکو چوہدری ریاض اپنا ڈرائیور رکھ لیتا ہے اور
بنگلے میں کوارٹر میں رہائش بھی دیتا ہےہما نام کی خوبصورت لڑکی بنگلے پر کام کاج کرتی ہے اور بہت کچھ جانتی ہے مگر چپ ہے... اس کہانی میں اےڈی مرچنٹ جسکی جگہ تھا اس کا نام ہارون احمد ہے جو کہ قانون کے ادارے سے وابستہ تھا...
انسپکٹر جمشید عالم جو اس ساری واردات کا تفتیشی
افسرہے.اب کون کس کو مارتا ہے یہ تو کہانی پڑھ اور فلم دیکھ کر پتہ چلے گا
شکریہ
کہانی نمبر 2 جس کا نام کالی دنیا ہے اج کل ادبی گروپوں میں ناول وہی زیادہ پڑھا جاتا ہے جسکا ہم تعارف یا تبصرہ جب تک پڑھ نا لیں میری طرح صرف کتاب کا ٹائٹل دیکھ کر ہی کتاب پڑھنے کا ارادہ کرنے والے کم ہی
ہونگے.مگر یہ لاٹری میں اکثر کھیلتا ہوں اس بار میری لاٹری لگی
ہے ایک ہی کتاب میں تین کہانیاں تھی یہ دوسری کا تعارف لکھ رہا ہوں
اس کتاب کی پہلی کہانی #بساط تھی جسکا ایک بھارتی
فلم Maharathi سے کمپیریزن کیا تھااب یہ کہانی تعارف کیلئے پیش خدمت ہے جسکا
نام کتاب کے ٹائٹل پر ہے
#کالی_دنیا اس کتاب کو راحت صاحب نے خالص جاسوسی 🧐 رنگ میں ڈھالا ہے کھوج انکشافات قتل تھیوریاں سراغ کہانی میں ٹوسٹ معاشرتی برائیوں کے ستا
ۓ لوگ اور ان سے سرزد ہونے والے گناہ.... تفتیش...تحقیق..... نتیجہ... کیا کچھ نہیں اس کتاب میں۔شہلا: ناول کا مرکزی کردار ایک صحافی کیمرا گلے میں ڈال کر ہر وقت کسی نہ کسی نئے کیس کی کھوج میں ہوتی ہےگل
شاہ: پولیس انسپکٹر... نہایت ہنس
مکھ، اور زندہ دل انسان جو کسی ایسے ثبوت کی تلاش میں تھا جس کے تانے
بانےعجیب طریقے سے شہلا سے مل رہے تھے.
پانچ لوگوں کا گروپ جن کو ایک ایک کر کے جلا کر کون قتل رہا تھا ۔؟زین: ایک شدید کنوارہ جسکی شادی ایک معمہ بن چکی تھی بے حد دلچسپ کرداردانش گردیزی: ایک پاور فل کردار الفاظ کا بہترین استعمال کرنا اس کی خوبی تھی لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اس کی پرسنیلٹی سےمتاثر ہو جاتے۔بہت کم ناولوں میں ہمیں جارحانہ مزاج
ولن پڑھنے کو ملتے ہیں دانش گردیزی کچھ اسی طرح کا انسان تھا۔اقتباس میں یہ راستے کھلے رکھتا ہوں ان چوروں کیلئے جو مجھے درکار ہیں ۔ مجھے کچھ چوروں کی تلاش ہے۔ اور وہ میرے لیے اہمیت رکھتے ہیں ۔یہ
راستے ان کیلئےہیں۔ سڑکوں پر پھرنے والے کتوں کیلئے نہیں۔ آئندہ یہ راستے اتنے سہل نہ ہونگے۔ اسے آپ نوٹ فرما لیں۔آپ کو عمارت میں میری بیوی بچے بھی نہ ملے ہونگے وہ اس قدربلند ہیں کہ انکے بارے آپ سے
گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتامجھے خوشی ہے کہ آپ نے کافی نہیں پی ان برتنوں کو ہاتھ نہ لگاۓ ورنہ مجھے انہیں کوڑے دان میں پھینکنا پڑتا آپکے کے چھونےکے بعد یہ اس قابل نہ رہتے کہ میں انہیں اپنے ہاتھوں
سے اٹھا کر باہر پھینک بھی سکتا آٹھ جائیے صوفے سے گیٹ آوٹ۔ولن کا ہیرو سے اتنا نفرت آمیز رویہ ناول کو بے
حدعمدہ بنا دیتا ہے ایک بار ضرور پڑھیں شکریا۔