تحقیقاتی آرٹیکل
بابائے اردو جاسوسی ادب جناب وکٹر گن
"میں نے لکھنا انگریزی ادب سے سیکها۔" ابن صفی
وکٹر گن بطور بانی اردو جاسوسی ادب
وکٹر گن کی آئرن سائیڈز سیریز بہت ہی کامیاب سیریز تھی۔ اس سیریز کے مرکزی کردار ایک جوڑی پر مشتمل تھے جس میں محکمہ سراغ رسانی (سکاٹ لینڈ یارڈ) کا انسپکٹر بل کرومز ویل اور سارجنٹ جونی لسٹر شامل تھے۔ انسپکٹربل کرومز ویل کو "آئرن سائیڈز" کے نام سے(یاد رہے آئرن سائیڈز نہ کہ ہارڈ سٹون) بھی جانا جاتا تھا کیونکہ وہ سخت طبیعت، مختلف مزاج اور طریقہ کار کا مالک ہے۔اسکاٹ لینڈ یارڈ کا چیف انسپکٹر (آئرن سائیڈز) کروم ویل ایک جاسوس جو بنیادی طور پر انسان ہے، واضح طور پر زندہ — اور تازگی سے بھرپور ایک مختلف انسان۔ بل کروم ویل کبھی کبھی ایسے غیر روایتی طریقے بھی استعمال کرتا ہے اگر اس کے افسران کو علم ہو جائے تو یقینی طور پر اسے فورس سے برخاست کر دیتے ۔ ایسا نہیں ہے کہ Ironsides کبھی بھی اپنے اعمال کو چھپانے کے لیے معمولی سی پریشانی اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے پیارے انداز میں تفتیش کے ذریعے آگے بڑھتا ہے اور ہر بار ٹاگٹ پر پہنچ جاتا ہے اور زیادہ کثرت سے وہ گرے ہاؤنڈ کی طرح حرکت کرتا ہے! وکٹر گن دیکھنے والا آدمی ہے۔ وہ اسرار کو اسی طرح سنبھالتا ہے جیسے اسے سنبھالا جانا چاہئے - احتیاط کے ساتھ نہ کہ پھسلن کے انداز میں۔
سارجنٹ جونی لسٹر
آئرن سائیڈز کا خوش مزاج نوجوان اسسٹنٹ، سارجنٹ جانی لِسٹر جسے عورتوں میں خاص دلچسپی ہوتی ہے اور ہر عورتوں کے پیچهے بهاگتا رهتا هے۔ آئرن سائیڈز کے مزاج کی وجہ سے سیریز میں پیدا ہونے والے خلا کو جانی لسٹر عورتوں میں دلچسپی لے کر اور اپنی باتوں سے پورا کرتا هے۔ جانی لِسٹر، خواتین کے لیے گھومتی نظروں والا ایک تیز نوجوان۔ کروم ویل اپنے پولیس پارٹنر کو لائن میں رکهتا هے اور اپنی گهری نظر رکهنے والے پولیس کے طریقوں سے اسے سکهانے کی پوری کوشش کرتا هے، لیکن لسٹر عام طور پر نشان سے کم ره جاتا هے۔
آئرن سائیڈز سیریز
انسپکٹر بل "Ironsides" Cromwell اپنی پہلی کتاب Footsteps of Death (1939) سے کرتا هے اور اگلے 27 سالوں میں کل 43 کتابوں میں نظر آتا هے۔ جن میں اسے اس کے وفادار سارجنٹ کی مدد حاصل هے۔یه کوئی حقیقی جاسوسی ناول نهیں هے۔ یه ایک الٹا جاسوسی ناول هے جس میں تمام مجرمانہ سرگرمیوں کے پیچھے ایک نہیں بلکہ دو ولن ہیں۔ تقریباً ہر الٹا کرائم ناول جو همیں قاتل کو شروع سے هی ظاهر کرتا هے وہ بهی اپنے نقطہ نظر سے تمام محرکات کو تلاش کرتے ہوئے اور اس کے جرائم کے طریقه کار کے بارے میں بڑی تفصیل سے کهانی بیان کرتا ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ اس ناول کا دلچسپ حصہ یہ هے که حتمی ابواب تک مقصد اور طریقے کبهی بهی معلوم نهیں هوتے۔سیریز میں چاقو پهینک کر قتل، قیمتی جانور کا اغوا، چوری، چوری اور بلیک میلنگ، قتل وغیره شامل هے، اس میں ایک آسٹریلوی جانوروں کا ٹرینر شامل هے جو تقریباً ایک شیر کے هاتهوں مارا گیا تها جو اس کے پنجرے سے فرار هو گیا تها ۔جانی کی هلکی پهلکی گفتگو آئرن سائیڈز کی بدمزگی اور اس کے مزاج کی هولناکی کے خلاف کافی مزاح فراهم کرتی هے۔ وه مل کر ایک بهترین ٹیم بناتے هیں۔
ابنِ صفی کی جاسوسی دنیا سے پهلے زیادہ تر ترجمے هوتے تهے اس دور کےقارئین تراجم پڑھ کر انگریزی ادب سے اچهی طرح متعارف تھے اور ان کے ذهنوں میں یہ اندازِ تحریر حاوی بهی تها لهذا ابنِ صفی کو جگه بنانے میں کوئی دقت پیش نه آئی ۔ انهوں نے نئی راہ نکالی اور وکٹر گن کی سیریز کے ایک ناول کا " پلاٹ " لے کر اس پر جاسوسی دنیا کے نام سے اپنا مکان بنانے کی کامیاب کوشش کی ۔ جب وہ مشہور ہو گئے تو اس کے بعد جلد ہی انہوں نے بتا دیا کہ پلاٹ کسی کا تھا لیکن مکان میرا اپنا تو پڑھنے والوں نے کہا کہ یہ ہوتا ہے سچا آدمی۔اولین لکھنے والے انگریزی ادب کے شاگرد ہیں ، اردو جاسوسی ادب ہمیشہ وکٹر گن کا احسان مند رہے گا کیونکہ وکٹر گن نہ ہوتے تو ان کا ناول نہ ہوتا، پلاٹ نہ ملتا اور مکان تعمیر نہ ہوتا پھر برصغیر فحاشی کے خلاف نبرد آزما نہ ہو سکتا۔ فحاشی کے خلاف جنگ کا خیال آتے ہی دو سیریز ذہن میں آتی ہیں، ایک داستان ایمان فروشوں کی جس میں صلاح الدین ایوبی کی کہانی ہے دوسری جاسوسی دنیا جو کرنل فریدی کی کہانی ہے، اس سیریز میں ساجد حمید نے فحاشی کے خلاف کھل کر کام کیا ہے۔ اگر آپ بانی اردو جاسوسی ادب کے طور پر پلاٹ مہیا کرنے والے جس کی وجہ سے جاسوسی دنیا سامنے آئی، کو پہلا نمبر نہ دیں تو اخلاقی طور پر آپ مر چکے ہیں۔ تحقیق کے باوجود یہ علم نہیں ہوا کہ اپنے ناول کا پلاٹ استعمال کرنے کی اجازت دینے وکٹر گن ہندوستان آئے تھے یا ہندوستان سے کسی نے ان کے ملک کا سفر کیا تھا کیونکہ بلااجازت کسی کی کوئی چیز استعمال کرنے غیر اخلاقی، غیر قانونی ہے۔
آئرن سائیڈز سیریز اور چیف انسپکٹر بل کروم ویل