Name: Moby Dick
Writer: Herman Melville
Genre: Adventure fiction; epic; sea story; encyclopedic novel
موبی ڈک کے انتقام کی کهانی
ترتیب میاں محمد عاصم
امریکی ناول نگار ہرمن میلول 1819-1891 کا شاہکار ناول سال اشاعت 1851 موبی ڈِک (Moby Dick)
کپتان آہاب (Ahab) کے انتقام کی کہانی ہے۔ آہاب کا کاروبار یا مشغلہ وہیل مچھلیوں کو مارنا ہے۔ وہ یہ کام
ایک عرصے سے کررہا ہے۔ ایک بار ایک خطرناک مچھلی موبی ڈِک سے اس کا آمنا سامنا ہوا۔ موبی ڈِک باوجود
آہاب کی جرأت اور ہمت کے آہاب کے قابو نہ آئی بلکہ آہاب کی ایک ٹانگ اس کے جبڑے میں پھنس گئی
‘اب آہاب اپنی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ موبی ڈِک کو سمندر میں تلاش کرتا پھر رہا ہے تا کہ اس سے اپنا انتقام
لے سکے۔ وہیل مچھلی کے جبڑے سے بنی ٹانگ والا کپتان آہاب ایک بہادر آدمی ہے۔ اس کے جہاز کا نام
’’پیکاڈ‘‘ ہے جس پر اس نے تجربہ کار ملاحوں کا ایک ہجوم اکھٹا کر لیا ہے۔ ان کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ سمندری وہیل مچھلیوں پر نظر رکھیں جو سب سے پہلے سفید وہیل مچھلی موبی ڈِک کی نشان دہی کرے گا‘ اسے
16 ڈالر کا سونے کا سکہ انعام میں دیا جائے گا جو آہاب نے جہاز کے مستول کے ساتھ چپکا دیا ہے۔ ’’پیکاڈ‘‘
جہاز کے اس عملے میں ’’اسماعیل‘‘ ، ’’سٹاربوک‘‘ ، ’’سٹاب‘‘، نیزہ باز ’’تاشی ٹیگو‘‘ ، حبشی ’’کوگیک‘‘ اور
’’فلاسک‘‘ جیسے ماہر اور تجربہ کار ملاح ہیں۔ یہ سب کپتان آہاب کے اندر جلتی انتقام کی آگ بجھانے کیلئے جہاز
پر ملازم ہیں۔ آہاب کو موبی ڈِک کے بچ نکلنے اور اپنی ٹانگ کے ضائع ہونے کا بہت دکھ ہے، یہ دکھ انتقام بن کر
اسے دن رات پریشان اور بے چین کر رہا ہے، اس بے چینی کا علاج موبی ڈِک کی موت ہے۔ کیپٹن آہاب
اپنے عملے کو وہیل مچھلیوں کے بارے میں ایک سیر حاصل لیکچر دیتا ہے۔ موبی ڈِک کی عادات اور اس کے
ڈیل ڈول کے بارے میں بتلاتا ہے اور نشانی یہ بتلاتا ہے کہ اس کے جسم میں مختلف شکاریوں کے نیزے
پیوست ہوں گے۔ وہ بڑی چالاکی سے شکاریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور پھر اس سے بچنے کی ترکیبیں بتلاتا ہے۔ اپنے عملے کو پوری طرح باخبر کر کے وہ سمندری سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ سمندری سفر میں کیپٹن آہاب عقابی نظروں سے موبی ڈِک کو تلاش کرتا ہے۔ کچھ روز سمندر میں سفر کے بعد آہاب اچانک دیکھتا ہے کہ
سمندر میں فوارے چھوٹ رہے ہیں اور وہ چلا کر اپنے عملے سے کہتا ہے ’’یہی ہے موبی ڈِک! اپنے نیزے
سنبھالو اور حملے کیلئے تیار ہو جائو۔‘‘ چار کشتیاں جہاز سے سمندر میں اتاری جاتی ہیں اور ملاح نیزے لے کر موبی
ڈِک پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن موبی ڈِک پھرتی سے جوابی حملہ کرتی ہے اور ان کے نیزوں کو توڑ
دیتی ہے اور خود غائب ہو جاتی ہے۔ اسی دوران دوسری وہیل مچھلیاں ان پر حملہ کرتی ہیں۔ ایک وہیل
مچھلی کو ملاح مارتے ہیں۔ اس حملے میں ٹیگو کا پائوں ایک مردہ وہیل مچھلی کے جبڑے میں پھنس جاتا ہے۔
کیوگیگ بڑی جوانمردی اور بہادری سے ٹیگو کا پائوں جبڑے سے نکالتا ہے اور اس کی جان بچاتا ہے۔ جہاز کا
سارا عملہ اس کی تعریف کرتا ہے اور اسے ہیرو کا خطاب دیتا ہے۔ کپتان آہاب کو موبی ڈِک کے غائب ہونے
کا بہت افسوس ہے اور وہ دن رات ’’موبی ڈِک نظر کیوں نہیں آتی‘‘ کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ اور دن رات
اس لمحے کو یاد کرتا ہے جب اس کا پائوں موبی ڈِک کے جبڑے میں پھنسا تھا اور اسے اپنی ٹانگ سے ہاتھ دھونا
پڑے تھے۔ جب جب اسے یہ گھڑی یاد آتی ہے اس کے انتقام کی آگ تیز تر ہو جاتی ہے۔ آخر چند دنوں کے بعد
اس کا موبی ڈِک سے سامنا ہو جاتا ہے ۔ اپنے سامنے برف کا ایک پہاڑ دیکھ کر وہ چلاتا ہے: ’’وہ دیکھو موبی
ڈِک!‘‘ سب کشتیوں میں بیٹھ کر اپنے نیزے سنبھال کر موبی ڈِک کی طرف بڑھتے ہیں۔ کپتان آہاب خود بھی
حملے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔ موبی ڈِک پینتر ے بدل بدل کر ملاحوں پر حملہ کرتی ہے اور کشتیوں کو تباہ کر دیتی
ہے۔ جہاز کو نقصان پہنچاتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔ آہاب کا انتقام شدید ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے اگر
موبی ڈِک نہیں مرتی تو ہمیں مرجانا چاہیے اور اعلان کرتا ہے: ’’جو بھی موبی ڈِک کو مارے گا میں سونے کے دس
گنا سکے ملاحوں میں تقسیم کروں گا۔‘‘ دوسرے دن موبی ڈِک پھر آتی ہے۔ ملاح اس پر حملہ آور ہوتے ہیں
لیکن ان کے نیزے آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتی ہیں۔ ملاح زخمی
ہوتے ہیں، موبی ڈِک کے حملے سے ان کے ہاتھ پائوں زخمی ہو جاتے ہیں۔ ملاح تیر کر جہاز پر واپس چلے جاتے
ہیں۔ دو دن بعد موبی ڈِک پھر آتی ہے ، ملاح اس پر حملہ کرتے ہیں۔ سارا دن موبی ڈِک ان سے آنکھ مچولی
کھیلتی رہتی ہے۔ رات کے وقت ملاح لالٹین لے کر موبی ڈِک کو تلاش کرتے ہیں لیکن موبی ڈِک ان کے ہاتھ
نہیں آتی۔ دوسرے دن بہت سی وہیل مچھلیاں پیکاڈ جہاز کا پیچھا کرتی ہیں۔ ملاح ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور
پھر اچانک ان میں موبی ڈِک ظاہر ہوتی ہے، اس پر نیزوں سے حملہ کیا جاتا ہے۔ کپتان بڑی بہادری سے اس پر
حملہ کرتا ہے اور ایک نیزہ اس کے جسم میں اتار دیتا ہے۔ موبی ڈِک کپتان کی کشتی کو دھکیل کر سمندر میں لے
جاتی ہے اور پھر وہ اپنے بڑے دشمن پیکاڈ کی طرف بڑھتی ہے اور اس پر حملہ کرتی ہے۔ کپتان آہاب دوسرا نیزہ
بھی موبی ڈِک کے جسم میں گھونپ دیتا ہے۔ موبی ڈِک غصے میں آکر کشتیوں کو باری باری سمندر کی نذر کرتی ہے۔ ملاح سمندر میں ڈوبتے ہیں، موبی ڈِک پھر جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
جہاز میں پانی بھر جاتا ہے اور جہاز سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ کپتان آہاب انتقام کی حسرت دل میں لے کر اپنے
ساتھیوں سمیت لقمۂ اجل ہو جاتا ہے۔ صرف ایک ملاح اسماعیل زندہ رہتا ہے جو یہ ساری داستان سناتا
ہے۔ موبی ڈِک جہاز اور ملاحوں کو تباہ کرکے سمندر میں فاتحانہ انداز میں غائب ہو جاتی ہے۔ اسماعیل اس
کہانی کا آغاز کرتا ہے اور ساری کہانی اسی کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ کپتان آہاب موبی ڈِک سے انتقام لینے
کیلئے بیڈ فورڈ کے ساحل سے جو فوج لے کر سمندر کی طرف گیا تھا‘ اسماعیل اس فوج کا آخری سپاہی ہے جو
میدان کا رزار سے واپس لوٹا ہے۔ ’’موبی ڈِک‘‘ نے اسے شاید اس لیے زندہ چھوڑا ہے کہ وہ یہ کہانی لوگوں
تک پہنچاسکے۔ ہرمن میلول اس لحاظ سے ایک بد قسمت آدمی ہے کہ اسے اپنی زندگی میں وہ مقبولیت اور
شہرت حاصل نہ ہو سکی جو اسے مرنے کے بعد ملی۔ اس کی سفری یادداشتوں کو لوگوں نے کچھ عرصہ یاد رکھا‘
اس کے بعد کی تحریروں کو وہ خاطر میں نہ لائے، بحیثیت شاعر اسے لوگوں نے تسلیم نہ کیا حالانکہ اس نے امریکی
نظم نگاری میں طویل ترین نظم (Clarel) لکھی جو ایک طالب علم کا ارض مقدس کی طرف بحیثیت زائر سفر ہے۔ یہ 1876ء میں چھپی ، اس کی صرف 350 کاپیاں بکیں۔ 1925ء میں ہرمن میلول کے ایک نقاد نے
نیویارک لائبریری میں اس کی ایک کاپی دیکھی۔ اس کتاب کے صفحات اب تک جڑے ہوئے تھے۔ اسے کسی
نے اپنے نام جاری تک نہیں کرایا تھا۔ بقول نقاد (Lewis Mumford
"It had sat there unread for 50 Years".)
احمد عقیل روبی مرحوم
#hermanmelville #mobydick #bookstagram #melville #books #book #whale #writer